یہ بات تو ہم پہلے بھی بار بار بتاچکے ہیں کہ ہمیں اگر لیڈروں کے علاوہ کوئی اور چیز بری طرح مار رہی ہے تو وہ بزرگوں کے اقوال زرین ہیں جن کے ساتھ انگریزی قانون یا نظام عدل کی طرح یہ’’پخ‘‘بھی لگائی گئی ہے کہ
خطائے بزرگاں گرفتن خطاست
ترجمہ۔بزرگوں کی’’خطا‘‘ پکڑنا غلط یا عدالت کی توہین ہے۔مثلاً اقوال زرین کے اس انبار میں ایسے ایسے اقوال زرین بھی ہیں جنھوں نے پہلے ساری انسانیت اور بعد میں’’پاکستان‘‘کا خانہ خراب کیا ہوا ہے۔
مثال کے طور پر ایک بہت ہی مشہور زمانہ بلکہ رسوائے جہاں قول زرین ہے کہ آج کا کام کل پر مت چھوڑو۔اس میں اگر کچھ تھوڑی رعایت آج اور کل کی دی گئی تھی تو ’’سائیں کبیر‘‘ نے وہ بھی ختم کردی۔جو کل کرے سو آج کر اور جو آج کرے سو ’’اب‘‘۔چنانچہ ہمارے لیڈروں نے اس قول زرین کو اپنا ’’حزرجان‘‘ بناکر اس ملک کا’’ککھ‘‘ بھی ’’کل‘‘ کے لیے نہیں چھوڑا ہے۔سب کچھ ’’آج اور اب‘‘ کرکے ایسا لوٹا ہے ایسا لوٹا ہے کہ مہنگائی کے لیے بھی کچھ نہیں چھوڑا ہے۔وہ کسی دانادانشور نے کہا کہ ’’باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی‘‘۔لیکن یہاں یاروں نے ’’آج اور اب‘‘ ہی ایسا اور اتنا کیا ہے کہ مہنگائی کے مارنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں۔اور’’مارنا‘‘تواس کاکام ہے۔ اس لیے ’’کالانعاموں‘‘کو مار رہی ہے
اتنے حصوں میں بٹ گیاہوں میں
میرے حصے میں کچھ ’’بچا‘‘ ہی نہیں
اور بچارے کالانعام آج اور اب کی مار کھاتے ہوئے رو رہے ہیں چیخ رہے ہیں چلا رہے ہیں
زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں
اگر یہ بدبخت سیاہ بخت تیرہ بخت اور ’’ہروخت‘‘ قول زرین نہ ہوتا تو لیڈر آرام سے دھیرے دھیرے لوٹتے اور کل کے لیے کچھ نہ کچھ رہ گیا ہوتا؟یا اتنا کچھ بچا ہوتا کہ آج’’مہنگائی‘‘ آرام سے مارتی اور بچارے کالانعاموں کو ہڑپنے سے باز رہتی مگر افسوس صد افسوس کہ سارے لیڈر سائیں کبیر کے پیروکار نکلے
سو کل کرے سو آج۔جو آج کرے سو اب
وہ ایک پرائیوٹ کمپنی کے مالک کو بھی’’اقوال زرین‘‘ کا بڑا شوق تھا موقع و محل دیکھے بغیر منہ کا زپ کھولتے اور اپنے کارکنوں پر اقوال زرین فائر کرتے۔ ایک دن آئے تو یہ قول زرین کافی دیر تک فائر کرتے رہے کہ جلدی کاکام شیطان کا ہوتا ہے دراصل وہ کارکنوں کی جلد چھٹی کو روکنا چاہتے تھے۔جب وہ اپنے خیال میں یہ قول زرین بہت اچھی طرح کارکنوں کے ذہن میں راسخ کرچکے تو یہ دیکھ کر حیران بھی ہوئے پریشان بھی اور نالاں بھی کہ کارکن کام کرنے میں نہایت ہی سست رفتار ہوگئے ہیں۔
ہر ہر کارکن کے سامنے کام کا ڈھیر پڑا رہتا اور وہ مزے سے گپ شپ کرتے، اگر کسی کارکن سے پوچھتا کہ یہ کام کیوں نہیں کیا تو وہ اسی کا قول زرین نکال کر اس کے منہ مارتے کہ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے جناب۔تنگ آکر اس نے سوچا سوچتا رہا آخرکار سائیں کبیر کا یہ قول زرین ملا اور اس نے دفتر میں اسے لانچ کردیا۔
جو کل کرے سو آج جو آج کرے سو اب
قول زرین کو کارکنوں میں اچھی طرح ازبر کرا چکے تو مطمئن ہوکر گھر چلا گیا۔دوسرے دن آیا تو دفتر میں نہ آدمی نہ آدم زاد، گھنٹی بجائی، چپڑاسی کو آوازیں دیں وہ نہیں آیا تو خود ہی اٹھ کر پتہ لگایا، پھر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سارا کارخانہ پاکستان بن چکا ہے اکاؤنٹنٹ سارا کیش لے کر غائب تھا اور بھی جہاں دیکھا۔نظر خالی ہی لوٹ آئی سب کچھ غائب تھا۔فریج،اے سی،واٹرکولر۔ یہاں تک کہ پنکھے،اسٹیشنری اور فرنیچر تک غائب۔ صرف خالی کمرے بھائیں بھائیں کررہے تھے۔ اسے حیران و پریشان دیکھ کر چوکیدار اس کے پاس آیا اور پوچھا صاحب کیا ہوا۔صاحب نے سب کچھ بتایا کہ دفتر کا سب کچھ غائب ہے۔چوکیدار نے بھی جا کر دیکھا واقعی دفتر پاکستان ہوچکا تھا۔
دل میں ذوق وصل ویاد تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
چوکیدار نے حیران پریشان صاحب کو دیکھ کر تھوڑی دیر تک اپنا سر کجھایا اور پوچھا صاحب آپ نے کل کونسا قول زرین ارشاد فرمایا تھا؟ صاحب نے قول زرین دہرایا۔جو کل کرے سو آج جو آج کرے سو اب۔چوکیدار نے ہنس کر کہا ۔تو صاحب سب نے وہی کیا جو آپ نے کہا اور جو پاکستان میں لوگ کرتے ہیں۔میں کل موجود نہیں تھا ورنہ میں بھی یہاں نہ ہوتا۔پھر ادھر ادھر دیکھ کر کہا۔خیر دیر آئد درست آئد۔اور اپنا اسٹول اٹھا کر چل دیا
دھن کے ہاتھوں ہی بک گئے سب
اب کسی جرم کی سزا ہی نہیں
اب کسی جرم کی سزا بھی نہیں چاہے آپ ملین ملین پونڈ اور بلین بلین ڈالر ہڑپ کر لیں۔توشہ خانے توشہ خانے گوشہ خانے لوٹیں۔شہزادیاں پالیں گوگیاں اڑائیں ناکوں کا ورلڈ کپ جیتیں اور یہ ساری برکات اس قول زرین کی ہیں کہ آج کاکام کل پر نہ چھوڑو۔جو کل کرے سو آج۔جو آج کرے سو اب۔ جو ’’پوچھنے‘‘ والے ہیں وہ بھی چوپ رہے ہیں
ہم نے سوچا تھا کہ ’’حاکم‘‘ سے کریں گے فریاد
وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا
کہتے ہیں کسی ملک میں ایک ایسی زہریلی بارش ہوئی کہ جس پر اس کا چھینٹا پڑا یا جس نے وہ پانی پیا پاگل ہوگیا۔صرف بادشاہ اور اس کا ایک وزیر بچ گئے تھے لیکن سارا ملک پاگل تھا تو ان کی کون سنتا بلکہ سارے لوگ ان دونوں کو پاگل کہنے لگے۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا کوئی تدبیر؟وزیراٹھا ایک گھڑے میں اس بارش کا پانی تھا دو جام بھر کرلایا۔اور کہا بادشاہ سلامت میں بھی پیتا ہوں اور آپ بھی نوش جاں فرمائیں۔
Leave a Comment