لاہور:
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ مذاکرات تو بہت پہلے ہو جانے چاہئیں تھے اس میں تو کوئی شک نہیں ہے، حکومت کس بنیاد پر مذاکرات کرے، جب حکومت پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے بیٹھے گی تو اس کے پاس دینے کے لیے کیا ہوگا کچھ نہیں ہو گا۔
اسی طرح جو پی ٹی آئی کی کمیٹی ہے وہ کیا فیصلہ کر پائے گی کچھ نہیں کر پائے گی کہ ایک طرف فوج ہے دوسری طرف عمران خان ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سیاسی قوتیں جب ساتھ بیٹھ کر بات کر لیتی ہیں تو مسئلے کا حل کہیں نہ کہیں نکال لیتی ہیں۔
تجزیہ کار فیصل حسین نے کہاکہ کل تک عمران خان ایک بات کہتے تھے کہ میں اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ کسی سے بات نہیں کروں گا اس پر بھی انہیں طعنے دیے جاتے تھے کہ جوبات کرنی ہے وہ سیاس جماعتوں، سیاسی قوت سے ہوگی، جب وہ کہہ رہے ہیں کہ میں سیاسی قوت سے کرنے کو تیار ہوں تو اس پر بھی اب ان کو طعنے دیے جا رہے ہیں۔
تجزیہ کار عامرالیاس رانا نے کہا کہ عمران خان نے آج جو ٹویٹ کیا ہے اس میں لکھا ہے کہ جنرل ڈائر نے ڈی چوک پر جنرل ڈائر والا کام دہرایا ہے وہ آرمی چیف کو کہتے ہیں کبھی یزید سے مثال دے دیتے ہیں، ایک طرف ان کی یہ کپیسیٹی ہے کہ وہ پکار رہے ہیں کہ پانچ سو دن مجھے گزر گئے ہیں مجھے پانچ سو سال جیل میں رکھ لیں، دوسری طرف منت ترلہ کمیٹی بنائی ہے۔
تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ اس وقت صاحبان اختیار اور صاحبان اقتدار دونوں کے پاس پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر انگیج کرنے کے لیے کوئی موٹیفیشن نہیں ہے جن کے پاس اقتدار ہے وہ اپنے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور جن کے پاس اختیار ہے اختیار ان کے پاس ہے اقتدار والے تو ویسے ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ مذاکرات کے لیے بانی پی ٹی آئی نے پانچ رکنی کمیٹی تو بنا دی وہ اتنی بااثر دکھائی دے رہی ہے کہ کچھ نہیں کر پا رہی، حکومت سے مذاکرات کا کہہ رہی ہے مگر حکومت مذاکرات کے لیے ان پر اعتبار ہی نہیں کر رہی، پی ٹی آئی کے لیڈر آپس میں متفق نہیں ہیں یہی صورتحال ہے جو ان کی آپس میں سیٹل نہیں ہو رہی۔
Leave a Comment