انسانی زندگی کیا ہے؟ اس کو کس طرح سے ناپا جائے؟ کیا طوالت، اس کی کامیابی کی دلیل ہے؟ زائد العمری کیا واقعی ایک پیمانہ ہے جس پر ہم کسی بھی شخص کو مثبت یا منفی طریقہ سے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں؟ کیا ہم لوگ جو محاورتاً استعمال کرتے ہیں کہ خدا، آپ کو عمر خضر عطا فرمائے، کیا یہ واقعی کسی کے لیے لمبی زندگی، دعا کی حیثیت رکھتی ہے یا اس کے برعکس ہے؟ اب ذرا زاویہ بدل کر دیکھیے۔ کیا یہ اہم ترین بات نہیں ہے کہ انسان زندگی کے لمبی ہونے کے بجائے، اس امر پر حددرجہ غور کرے، کہ اس نے زندگی میں کیا کارنامہ انجام دیا ہے۔
اگر ایک شخص، مختصر سی زندگی میں بنی نوع انسان کے لیے کوئی ایسا کام سرانجام دے دیتا ہے جو اسے امر کر ڈالتا ہے، تو پھر عمر کی مدت حقیقت میں بے معنی ہو جاتی ہے۔ طالب علم کے نزدیک یہ قطعاً اہم نہیں ہے کہ خدا نے آپ کو وقت کتنا دیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ قدرت نے آپ سے زندگی میں کام کیا لیا ہے۔ یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر بہت کم غور کیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ عرض کرنا زیادہ صائب ہے کہ اس اہم ترین جزو پر قطعاً بات نہیں کی جاتی۔ بلکہ انسانی سوچ، اس کے برعکس کام کرتی ہے۔ لوگوں کی واضح اکثریت ایک بے مقصد طویل عمر کی خواہش کرتی نظر آتی ہے۔ جس میں روزگار، شادی اور بچوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ تناسب سے بات کرنا تو مشکل ہے۔ مگر کرۂ ارض پر 99.9 فیصد افراد اسی سوچ کے حامل نظر آتے ہیں کہ بس ایک لمبی عمر ہو، جس میں چند عامیانہ سے فرائض ادا کر کے راہِ فنا پر روانہ ہو جایا جائے۔ صرف 0.1 فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں جو عمر کی مدت سے بے نیاز رہتے ہیں۔
ان کے لیے اصل مقصد حیات یہ ہوتا ہے کہ وہ بالآخر کون سے ایسے نئے اور مثبت کام کر رہے ہیں، جن سے انسانیت پر ان کے نقش پا ہمیشہ کے لیے قائم ہو جائیں۔ اصل میں یہی لوگ، انسانوں کا اصل جوہر ہوتے ہیں۔ معدودے چند لوگ، پوری بنی نوع انسان کا وہ عطر ہوتے ہیں، جو صدیوں میں کشید ہوتا ہے اور یہ کبھی بھی معدوم نہیں ہوتے۔ دنیا ان کھربوں انسانوں کو فراموش کر دیتی ہے، جو آئے اور پھر ستر یا اسی برس زندہ رہ کر چلے گئے مگر ایک فیصد سے بھی کم لوگ زمانہ کی پہچان بن پاتے ہیں۔ طالبعلم مذہبی یا سیاسی نقطہ نظر سے بالکل گزارش نہیں کر رہا۔ کیونکہ کرۂ ارض کو کسی بھی ایک مخصوص فلسفہ میں مقید نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال یہ ایک دلیل پر مبنی بحث ہے۔ جو اتنے مختصر کالم میں سموئی نہیں جا سکتی۔ اس کے علاوہ صرف غیر متعصب طریقے سے اپنی گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
غور فرمایئے، میں چند عظیم لوگوں کی فانی زندگیوں پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں جو اپنے زمانے پر حددرجہ اثرانداز ہوئے۔ جنھیں دنیا آج بھی یاد رکھتی ہے مگر انھوں نے سب کچھ بہت ہی قلیل عرصہ میں سرانجام دیا۔ عمر کی معمولی سی مہلت، ان کے محیرالعقول کارناموں پر قطعاً اثرانداز نہیں ہوسکی۔ سکندراعظم کو ذرا دیکھیے۔ دنیا کو فتح کرنے کا خواب جواں سالی میں دیکھا۔ اپنے وقت کی طاقتور ترین سلطنت، جس کا حکمران دارا تھا، اسے شکست دی۔
ایشیا، یورپ اور دیگر براعظموں کو روند ڈالا۔ کیا آپ کے ذہن میں ہے کہ اس فقید المثال فاتح نے کتنی عمر پائی۔ صرف اور صرف بتیس (32) سال۔ اتنی کم عمری میں وہ پورے کرۂ ارض کی اکثریت کو مفتوح کر چکا تھا۔ جناب، آج کل کیا کوئی انسان اتنی وسیع سلطنت کا خواب بھی دیکھ سکتا ہے۔ شاید نہیں؟ اگر سکندر، اسی سال تک سانس لیتا رہتا۔ یعنی اپنی ذاتی چھوٹی سی حکومت پر اکتفا کرتا رہتا تو آج دنیا اسے عظمت کے لقب سے یاد نہ کرتی۔ وہ فاتح اعظم نہ کہلاتا۔
شیکسپیئر کے ادبی کام کو ذرا دیکھیے۔ Warwickshire میں 1564ء میں پیدا ہوا۔ اس نے انگریزی زبان میں محیرالعقول ڈرامے لکھے۔ کمال شاعری کی۔ آج تک اس کے ڈراموں کے اقتباسات سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے قلم سے تحریر شدہ چند جملے تو پانچ صدیوں بعد بھی ضرب المثل بن چکے ہیں جیسے جولیس سیزر جیسے ڈرامے کا یہ فقرہ you, too ,brutus آج ہر کوئی آستین کے سانپوں کے لیے استعمال کرتا ہے۔
کئی بار تو حیرت ہوتی ہے کہ شیکسپیئر کتنے زرخیز دماغ کا انسان تھا جس میں سے تحریر، قدرت سے ودیعت ہوئی معلوم ہوتی ہے مگر یہ شخص صرف باون برس (52) کی عمر لے کر آیا تھا۔ کئی لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ جواں عمری میں ہی انتقال کر گیا۔ اتنی کم مدت میں، اتنا زبردست ادب تخلیق کرنا کسی بھی انسان کے لیے حددرجہ مشکل نظر آتا ہے مگر شیکسپیئر مختصر سی زندگی میں وہ کام کر گیا، جو لوگ سو برس کی زندگی پا کر بھی نہیں کر پاتے۔ بلکہ میں تو عرض کروں گا کہ اگر انھیں دو صدیاں بھی دے دی جائیں تو پھر بھی وہ خاندان بڑھانے کے سوا شاید کچھ نہ کر پائیں گے۔
وین گوگ (Van gogh) 1853ء میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق ہالینڈ سے تھا۔ اس نے اپنی زندگی کی شہرہ آفاق پینٹنگز، اپنی زندگی کے آخری دو سالوں میں بنائیں۔ وین گوگ نے صرف سینتیس (37) برس کی عمر پائی۔ اتنی مختصر سی زندگی میں اس نے نو سو پینٹنگز بنائیں۔ اور اس کے علاوہ گیارہ سو ڈرائنگز اور سکیچ بنائے۔ وین گوگ، اپنی تصاویر بیچنے کے خلاف تھا۔ اپنی سینتیس برس کی زندگی میں اس نے صرف ایک پینٹنگ فروخت کی جس کا نام The red Vineyard تھا۔ اور وہ صرف چار سو فرینک میں بکی۔ مگر آپ اس کی تصاویر کی قیمتیں ملاحظہ فرمائیں توا نسان حیران ہو جاتا ہے۔ اس کی صرف ایک تصویر Orchard With Cypresses، نیویارک میں ایک سو سترہ (117) ملین ڈالر میں فروخت ہوئی۔ خدا نے وین گوگ سے چند محدود برسوں میں اتنا عظیم کام کروا لیا جس کی مثال دینی مشکل ہے۔
بالکل اسی طرح برصغیر کا فقیدالمثال لکھاری سعادت حسن منٹو، 1912ء میں سمرالہ میں پیدا ہوا۔ جو ضلع لدھیانہ میں واقعہ ہے۔ اس کی فانی عمر صرف بیالیس برس (42) کی تھی۔ اتنی مختصر مدت میں منٹو نے کہانیوں کے بائیس مجموعے تحریر کیے۔ ایک ناول، ریڈیو کے لیے پانچ سیریز، مختلف مضامین کی تین کتب اور خاکوں پر مبنی دو نسخے رقم کیے۔ ان کو جمع کیا جائے تو یہ بتیس نسخہ جات بنتے ہیں۔ کیا اس بات پر حیرت نہیں ہوتی کہ صرف بیالیس برس میں منٹو کتنا کچھ اور کیا کیا کچھ لکھ گیا۔ ویسے اس نے اکیس برس کی عمر میں لکھنا شروع کیا۔ اس طرح اس کا پورا کام صرف بیس سالوں پر محیط ہے۔ اتنی چھوٹی سی مدت میں اتنا زیادہ اور بھرپور ادبی کام قدرت کا انعام ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کیا کہا جائے۔
جان کیٹس (John Keats) انگریزی زبان کا لافانی شاعر گردانا جاتا ہے۔ اس نے لازوال شاعری صرف اور صرف پچیس سال کی عمر میں مکمل کر لی۔ اسی طرح برصغیر کا سب سے کامیاب شہنشاہ اکبر اعظم تریسٹھ سال کی عمر میں ایک عظیم الشان سلطنت بنا کر دنیا سے جا چکا تھا۔
شاید آپ کو تریسٹھ سال کی عمر زیادہ معلوم ہو۔ مگر اپنے اردگرد دیکھیے، آپ کو انگنت بے مقصد سی زندگی گزارنے والے افراد نظر آئیں گے جنھوں نے اس عمر تک کسی قسم کا کوئی نیا کام نہیں کیا۔ کرۂ ارض پر Mozart نام کا ایک موسیقار پیدا ہوا ہے۔ اس نایاب شخص نے موسیقی کی ایسی ایسی دھنیں ترتیب دی ہیں جن کا مقابلہ آج تک کوئی نہیں کر سکا۔ آج کے دن تک، بڑے سے بڑا موسیقار بھی Mozart کے پائے کی موسیقی ترتیب نہیں دے سکا۔ یہ زرخیز موسیقار صرف اور صرف پینتیس برس کی عمر لے کر آیا تھا۔ ذرا سوچیے۔ غور کیجیے کہ صرف پینتیس سال میں Mozard کتنی خوبصورت دھنیں ترتیب دے گیا۔
عرض کرنے کا مقصد صرف ایک ہے۔ بے مقصد اور عام سی طویل عمر کا کوئی جواز نہیں۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ انسان کو اس اہم نکتہ پر غور کرنا چاہیے کہ خدا نے اسے جو مہلت دی ہے، اس مدت میں وہ انسانیت کے لیے کیا نیا کر کے رخصت ہوتا ہے۔
اس سے کوئی مطلب نہیں کہ وہ زندگی کے کس شعبے سے تعلق رکھتا ہے؟ کس نسل یا مسلک سے اس کا تعلق ہے؟ وہ کون سی زبان بولتا ہے؟ کس بولی میں لکھتا ہے؟ جوہری مرکز صرف ایک ہے کہ وہ اپنی عمر کی مدت میں کیا کام کرتا ہے؟ اور اس میں کتنا نیاپن ہے؟ اور لوگ صدیوں بعد اسے کس نظر سے پرکھیں گے۔ اس میں انسان کی عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ زندگی کے مختصر ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اپنے ذہن پر زور ڈالیے۔ سوچیے، کیا واقعی طویل عمر ضروری ہے؟ یا اس کے برعکس، ایک مختصر زندگی، جس میں انسان وہ کام کر ڈالے، جو آنے والے وقت میں اس کی پہچان بن جائے اور وہ وقت کی قید سے آزاد ہو جائے۔
Leave a Comment